
یہ اس انسان کی تصویر ہے جس نے اپنے بہنیں اور بھائیوں کو غداری کا خنجر مارا
اللہ سے دعا کرتا ہون كہ اس نے جو ظلم ہمارے ساتھ کیا اس کا بدلہ اللہ اس سے جلدی سے جلدی ہمارے ہوش میں ہیں اللہ اس کا بدلہ لے
“اللهم لقد أراني قوته علي، فأرني قوتك عليه”
Tel: 0300-9624486
Tel: 0333-8404141
احمد کے دھوکہ دہی پر بات کرنے سے پہلے میں اپنی فیملی کا پس منظر پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ہم 1958 سے کویت میں رہا کرتے تھے سن 1965ء سے میرے والد کویت آرمی میں ڈیوٹی کرتے تھے اور 1988 میں فرسٹ لیفٹیننٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے اور کچھ کاروبار شروع کیے۔ پہلی خلیجی جنگ (کویت پر عراقی حملہ کیا 1990ء) تو ان کو جنگ کے دوران وہ پاکستان منتقل ہونے پر مجبور ہو گئے۔ پاکستان منتقل ہونے کے بعد ہم گجرات میں آباد ہوئے۔ 1992 میں میرے والد صاحب نے مجھے کویت میں گم ہو جانے والی چیزیں اور نقصانات کے متعلق اقوام متحدہ میں دعوی دائر کرنے کو کہا۔ یہ ہر شخص کے لیے ضروری تھا جو کویت سے آیا تھا۔ یہ ہر کویت سے آنے والے شخص کے لیے اقوام متحدہ کی طرف سے معاوضہ دینے کی پیش کش تھی۔
میں نے ایک بڑی لسٹ بنائی جس میں کویت میں کھو جانے والی چیزوں اور نقصانات کی تفصیل دی اور اسلام آباد کے اقوام متحدہ میں درخواست جمع کروائی، میں نے گجرات میں کچھ مہینوں تک انتظار کیا پھر وہاں سے نوکری کے لیے لاہور چلا گیا، بعد میں کویت چلا گیا آخر کا ر کینیڈا اور پھر امریکا چلا گیا۔ 7 اگست 1997ء میں میرے والد کا انتقال ہو گیا ۔مجھے محسوس ہوا کہ جیسے میں نے اپنا اچھا دوست کھو دیا ہو۔ جب میں نے پہلی بار یہ خبر سنی اُس وقت میں پڑھ رہا تھا اور میں اپنی کرسی سے کھڑا نہ ہو سکا۔
کچھ ہفتوں بعد ، اس نے وکیل نامہ کی درخواست کی کہ وہ میرے والد کی تمام جائیداد اکٹھا کریں اور اس کو وراثت کے حق کے مطابق اُسے تقسیم کر یں۔
حقیقتاً میرے والد کے پاس لگ بھگ سات پراپرٹی اور تقریباً گیارہ بینک اکاونٹ تھے اُن کے کاروبار بھی تھے اور دوسروں کے ساتھ شراکت داری بھی تھی۔ اور کسِی کو تمام اثاثوں کو اکٹھا کرنے کے لیے وکیل نامہ لازمی تھا۔
ستمبر 1997ء میں ہم سب نے مل کر فیصلہ کر کے احمد محمد علی کو وکیل نامہ دینے کا باہمی فیصلہ کیا۔ اُس نے تمام اثاثوں کو اکٹھا کیا اوراِن کو مختلف ناموں سے رکھا۔ اپنے نام پراپرٹی، میری والدہ کے نام بینک بیلنس اور میرے چھوٹے بھائی کے نام گھر رکھا۔
بعد میں 1998ء میں ،چھوٹے بھائی نے مجھ سے کمپیوٹر خریدنے کو کہا میں نے بغیر ہچکچاہٹ کے اسے 1,000 ڈالر بھیج دیا۔ دوبارہ 1999ء میں، میں اِس نے مجھ سےمیری چھوٹی بہن کی شادی کے لیے پیسے مانگے میں نے بغیر ہچکچاہٹ کے 2,000 ڈالر بھجوا دیئے۔ اِس کی وجہ، مجھے اُس کا ذکر اِس لیے کرنا پڑا کیونکہ اِسی دوران احمد میرے والد کے پلاٹ بیچنے اور اپنے نام سے نئے خریدنے پر کام کر رہا تھا۔ وہ ایسا کسی پکڑے جانے والے عمل سے بچنے کے لیے کر رہا تھا تاکہ کوئی بھی اپنی جائیداد کا دعوی نہ کر سکے۔
فروری 2001ء میں، اُسے چھوٹے بھائی کو انگلینڈ بھیجنے کے لیے مزید جائیداد بیچنی پڑی۔ 2002ء میں، اُس نے اپنی بیرون ملک جانے کی توجہ کا اظہار کیا۔ میں نے کویت یا پھر سعودی عرب جانے کا مشورہ دیا۔ اُس نے اِس خیال کو مسترد کر دیا اور مجھے کہتا رہا میں صرف یورپ یا امریکہ جانا چاہتا ہوں۔ میں نے اُسے صاف صاف بتا دیا تھا کہ میں اِس کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔
بعد میں 2003ء میں اُس نے خود یورپ جانے کی کوشش کی۔ اُس نے کچھ ایجنٹوں کو معاوضہ ادا کیا اور وہ آذربائیجان کے شہر باکو پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اور وہ وہاں پکڑا گیا۔ کچھ مہینوں بعد آذربائیجان کی حکومت نے اُسے واپس پاکستان بھیج دیا۔ چھ ماہ بعد، اُس نے دوبارہ آذربائیجان سے گزر کر جارجیا کے شہر تبلیسی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ دوبارہ پکڑا گیا اور کچھ مہینوں بعد جارجیا کی حکومت نے اُسے واپس پاکستان بھیج دیا۔
وہ تمام پراپرٹی فروخت کرنے کے بعد جو وہ فروخت کر سکتا تھا اور دو بار غیر قانونی طور پر یورپ داخل ہونے کی کوشش کے ساتھ، اس نے ایک قسم کی امید ختم دی اور گجرات مارکیٹ میں ایک موبائل کو ٹھیک کرنے کا سٹور کھول لیا۔ یہ سٹور ذیادہ تر خالی تھا لیکن یہ اس کی ٹائم پاس کرنے کی جگہ تھا اور میری والدہ سے دور رہنے کا سٹیشن تھا۔
اور اُس وقت اس نے باقی اثاثوں پر قبضہ کرنے کا اصل منصوبہ شروع کر دیا۔ اُس نے میری والدہ کو میرے ساتھ امریکہ لے جانے اور اُن کی دیکھ بھال کرنے کا مشورہ بھی دیا۔ میں نے اُس کی بات نہ قبول کی۔ اور اُ سے کہا کہ میری ماں کواُن کے گھر میں رہنے دیں۔
آخر کار اگلے چند مہینوں میں، جون 2003ء میں اُس نے باقاعدہ طور پر سب کچھ اپنے نام پر کروا لیا۔
اپریل 2013 میں، اس نے مجھے ہر دن فون کیا اور مجھ سے کہا کہ وہ ماں کو امریکہ منتقل کریں اور اسے اپنے پاس رکھیں۔ اس نے اپنے چلتے موگھر پر بہت زیادہ زور دیا، مجھے یہ پتہ چل گیا تھا کہ وہ عامر ہاؤس کو اپنے نام لینے کا ارادہ کر رہا ہے۔ تو میں کہتا رہا میری ماں کو اپنے ہی گھر میں رہنے دیں۔ یہی اس کا گھر ہے۔
جنوری 2014 میں، اس نے ایک بار پھر مجھے فون کیا اور مجھ سے کہا کہ وہ عامر کو گھر کی رجسٹری بھیجنے کے لئے کہے۔ اس نے اپنی تمام بہنوں سے کہا کہ وہ عامر کو رجسٹری بھیجنے کے لئے فون کریں۔ اس نے ہمدردی ظاہر کرنے کی کوشش کی اور رجسٹری حاصل کرنے کے لئے مجھے بھی دھوکہ دیا، لیکن میں کہتا رہا۔ نہیں ، عامر کے ساتھ رجسٹر رکھنا بہتر ہے۔
مجھے دھوکہ محسوس ہوا لیکن میں کچھ نہیں کر سکا۔ کئی سالوں مجھے اپنا منہ بند رکھنا پڑا۔ لیکن جب بھی میں اس مسئلے پر بات کرتا تھا، میری والدہ مجھے الزام دیتیں، مجھے اپنا منہ بند رکھنا تھا۔ اَپنی والدہ کی خاطر، میں کچھ نہیں کر سکا۔ اَلحمداللہ، میری والدہ میری تعریف کرتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ اس میں ٹائم لگ سکتا لیکن میں اپنے والد کے انصاف کے لیے لڑوں گا کیونکہ جب میں اُن کو آخرت میں دیکھوں گا تو میں چاہتا ہوں کہ وہ مجھ پر فخر کریں۔ میں استغفار کرنا اور اللہ سے اس کا رحم مانگنا بند نہیں کروں گا۔ میں اَپنے خون کے آخری قطرہ تک انصاف کے لیے لڑوں گا۔
اس کے بعد 22-26 مارچ 2018ء کو، احمد نے وراثت کو الگ الگ تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُس نے 4 دن کی ملاقات کے لیے میرے تمام بھائیوں اور بہنوں کو بلایا اور سب کی توہین کی جس کسی نے اس کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی طارق کی حمائت سے سب کو نیچے رکھا۔ طارق کی حمائت سے انہوں نے میرے بھائیوں اور بہنوں پر بہت دباؤ ڈالا اور ان کو مندرجہ ذیل شرائط پر اتفاق کرنے ہر مجبور کیا۔
۔1- گھر (عامر ہاؤس) اسے طارق نے دیاہے اوریہ کسی بھی بحث کا حصہ نہیں ہے۔
۔2- 1997 میں بینک میں پیسہ صرف موضوع پر زیر بحث آیا۔ 1997 کے بعد سے ہونے والی کسی بھی دلچسپی کا تعلق احمد سے ہے کیوں کہ وہ اسے بر قرار رکھنے میں کامیاب رہا۔
۔3- ایک چوتھائی ¼ : ہماری والدہ کے لیے لیا گیا۔ یہ اُن کا حق ہے۔
۔4- 1997 کا باقی ¾ : اس کے مطابق تقسیم کیا جائیں گے۔
۔5- بہنوں کو 1,70,000 روپے ملیں گے اور بھائیوں کو 3,40,000 روپے ملیں گے۔
۔6- یہ فنڈ کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کے 15 دن بعد دیئے جائیں گے۔
میٹنگ کے اختتام پر اس نے سب کو یہ اعلان کرتے ہوئے دستخط کر دیئے کہ میں نے اپنا حصہ لیا ہے اور میں کسی اور چیر کا حقدار نہیں ہوں۔ انہوں نے ہر ایک کو یہ اعلان کرتے ہوئے ایک مقالمے پر دستخط بھی کروائے کہ وہ کسی عدالت میں دعویٰ دائر نہیں کرے گا اور کسی کے ساتھ اس معاہدے پر بات نہیں کرے گا۔
اہم سوالات
۔1- میرے والد کا انتقال 1997 میں ہوا، وراثت کی تقسیم 2018 میں ہوئی۔ 21 سال بعد وراثت کی تقسیم ہوئی۔ یہ کیسا انصاف ہے؟
۔2- وراثت کی تقسیم میں گھر کو کیوں شامل نہیں کیا؟
۔3- آپ نے کبھی ہائی اسکول مکمل نہیں کیا، تو آپ زمیندار کیسے بن گئے؟ آپ نے تمام جائیدادیں کیسے کمائیں؟